ارنا کے نمائندہ خصوصی کے مطابق "پاک سرزمین شاد باد، کشور حسین شاد باد"، پاکستان کے قومی ترانے کے بیت ہیں۔ یہ ترانہ ایران کے مشرقی ہمسایہ ملک کے عوام فارسی زبان میں پڑھتے ہیں اس بارے میں ان کے پاس کہنے کو بہت سی باتیں ہیں۔ ہم ایرانیوں کی زبان میں لکھا گيا یہ ترانہ اس بات کی نشانی ہے کہ ایران اور پاکستان تعلقات کتنے مضبوط ثقافتی اور تہذیبی بنیادوں پر استوار ہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ نے بدھ کے روز اسلام آباد کا دورہ کیا اور اس شہر کے نام میں فارسی لفظ "آباد" کا لاحقہ پوری طرح چمک رہا ہے۔ وہ اسی طرح کراچی بھی گئے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے فروغ کی رفتار مزید تیز کی جاسکے۔
دونوں ممالک کے عوام کے درمیان دیرینہ تاریخی اور جغرافیائی رشتے قائم ہیں۔ ایک جانب ایران عوام بانی پاکستان محمد علی جناح اور علامہ اقبال جیسے عظیم شاعر کو بخوبی پہچانتے ہیں تو دوسری جانب پاکستان کے عوام ایران کے بڑے شہروں اور خاص طور سے مشہد کا سفر کرتے ہیں اور یہ عمل دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی قربت کے احساس کو گرماتا رہتا ہے۔ .
فارسی کے لسانی اشتراکات کے ساتھ ساتھ پاکستان کی عظیم شخصیات کے نام سے منسوب ایران کی سڑکیں اور شاہراہیں اور ایران کی عظیم ہستیوں کے نام سے منسوب پاکستان کی اہم سڑکیں اور مقامات، دونوں قوموں کے گہرے تعلقات کی منظر کشی کرتے ہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ کے حالیہ دورے میں کراچی کی ایک سڑک کا نام بدل کر امام خمینی رح کے نام پر رکھ دیا گيا۔
بر صغیر کے عوام جو ان دنوں اردو اور انگریزی زبان روانی سے بولتے ہیں، سوسال تک فارسی ان کی سرکاری زبان رہی ہے اور آج بھی سامراجی سازشوں کے باوجود یہ لوگ فارسی کے ساتھ اپنے تہذیبی اور لسانی رشتوں پر فخر کرتے ہیں۔
وزیر خارجہ ایران کے دورہ پاکستان کے دوران جب اصفہان کی دستکاری کا ایک نمونہ اس ملک کی سینٹ کے چیرمین کو پیش کیا گيا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے فارسی زبان کی تمثیل "اصفہان نصف جھان" اپنی زبان سے ادا کی اور ایک پاکستانی ادیب کے بقول وہ یہ چاہتے تھے کہ ایک بار پھر یہ بتائيں کہ اردو پارسی زبان کی حسین بیٹی ہے اور اس خاندانی تعلق کو بھلا کیسے بھلایا جاسکتا ہے۔
دو پڑوسی اور مسلمان ملکوں میں پائے جانے والے ثقافتی رشتوں کی اساس پر سن 1986 میں ایک ایرانی عہدیدار کا دورہ پاکستان دونوں ملکوں کے تعلقات میں سنگ میل بن گيا جس سے عوامی تعلقات کی خوشبو چار سو پھیل گئی۔
ایران کے اس وقت کے صدر کی حیثیت سے آيت اللہ سید علی خامنہ ای کا دورہ پاکستان اور لاکھوں پاکستانیوں کی جانب سے ان کا پرجوش استقبال آج بھی ذہنوں میں نقش بستہ ہے۔
پاکستان کے فارسی گو شاعر اور ادیب پروفیسر محمد اکرم جو اس دورے میں مترجم کی حثیت سے آيت اللہ خامنہ ای کے ساتھ ساتھ تھے، اپنے ایک انٹرویو میں اس رویداد کو اس طرح بیان کرتے ہیں، ان کے (آيت اللہ خامنہ ای) ایک ایک لفظ اور نظر میں محبت اور الفت بسی ہوئی تھی، ان کی باتوں اور کردار میں عجیب جاذیبت تھی ، جب انہوں نے علامہ اقبال کے بارے میں بات کی تو میں سمجھ گیا کہ وہ پاکستان کے ثقافتی اور سیاسی پیش منظرکو بخوبی دیکھ رہے ہیں، پاکستان کے عوام جو ایران کو دل جان سے چاہتے ہیں، سید عالم دین کے عاشق ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان یہ رشتے دونوں قوموں کے تہذیبی تانے بانے میں اس طرح پیوست ہیں کہ امام خمینی (رح) کی رحلت پر پاکستانیوں نے 10 دن تک عام سوگ منایا تھا۔
شاید یہی ثقافتی یکجہتی اور قربت دونوں ملکوں کے تعلقات کو جداگانہ تشخص عطا کرتی ہے۔
پاکستان وہ ملک ہے جس میں اسلامی انقلاب ایران اور ایران کے اسلامی جمہوریہ نظام کو دنیا میں سب سے پہلے تسلیم کیا۔
واشنگٹن میں پاکستان کا سفارت خانہ کئی عشروں سے ایران کے مفادات کی نگہبانی کر رہا ہے۔ پاکستان، ایران عراق جنگ کے دوران کسی حدتک غیر جانبدار تو رہا لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کو کراچی بندرگاہ کے استعمال کی اجازت بھی دے دی۔ اسلام آباد نے علاقائی اور عالمی معاملات میں بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے تحفظات کو ہمیشہ مد نظر رکھا۔ پاکستان نے یمن کے خلاف مسلط کردہ جنگ میں بھی حصہ نہیں لیا۔
ایران بھی وہ پہلا ملک تھا جس نے قیام پاکستان اور برطانوی سامراج سے اس علاقے کے مسلمانوں کی آزادی کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔
ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کی حکومت اسی تاریخی، تہذبی اور ثقافتی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات کے فروغ کی جو مخلصانہ کوشش کر رہی ہے اسکا اعتراف کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں اس بات کو تسلیم کیا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں محض چند ماہ کےدوران چند برس کے برابر فروغ آيا ہے۔
آپ کا تبصرہ